عابد حسین مقدسی



بسمه تعالی:

 سلسلہ درس۔تزکیہ نفس۔۔

ھم نے بچھلے تحریر مین تزکیہ ،کے بارے میں کچھ مطالب بیان کیے تھے۔ اب ا یہاں پر نفس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ھے۔۔

نفس کے معنی۔ نفس لغت میں روح کے  معنی میں استعمال ھویے ھے۔راغب اصفہانی لکھتے ھے نفس کا معنی روح کے ھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ھے۔وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی أَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ(235)۔[1] یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم واِردبار بھی

نفس قرآن کی نظر میں۔ آیةالله طبرسی  نے تحریرکیا ھےنفس کی تین معنی بیان کی هین1_نفس روح کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔۔ جیسا که گذشته آیه مین بیان کیا.

2-۔نفس ذات کے معنی میں بھی استعمال ھوا ھے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے وَ اتَّقُواْ یَوْمًا لَّا تجَزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْا[2] اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے

3- نفس قلب اور باطن کے معنی میں بھی اسعتمال ھوے ھے جیسا کہ قران مجید میں خالق کائنات فرماتے ھے۔۔ وَ اذْکُر رَّبَّکَ فىِ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَ خِیفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الاَصَالِ وَ لَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِین[3]

اوراپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

نفس کے مراتب قرآن کی نظر میں۔[4]

نفس کے چند مراتب قرآن مجید میں بیان ھوے ھیں۔1-نفس امارہ :جو کہ انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن اور خدا کے عظیم بندوں نے اس سے پناہ طلب کی ھے۔قران کریم میں ارشاد ھوا ھے وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسىِ  إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ  بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ إِنَّ رَبىّ غَفُورٌ رَّحِیم[5] دوسری ایت میں ارشاد ھے وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الهْوَى‏(40)فَإِنَّ الجْنَّةَ هِىَ الْمَأْوَى[6] جو اپنے پروردگار کے مقام و مرتبہ سے ڈرااور اس نے ھوا و ھوس سےاپنے نفس کو روکے رکھاتو بھشت اسکی منزل ھے

نفس کے اس مرتبہ کے سلسلہ میں امیرالمومنین ع فرماتے ھے۔ بندہ پر فرض ھے کہ وہ اپنے نفس کو سرکشی اور بے ادبی سے روکے رکھے اور اسے با ادب و مودب بنایےاور بندے کو چاھیےکہ وہ اسکی خوھشون کو پورا نہ کرے بلکہ اسے قابو میں رکھے اگر آزاد چھوڑدے گا تو وہ اسکی تباھی میں ایسا شریک ھوگا جو نفس کی خواہشون کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرتا ھے گویا اس نے بربادی اور ھلاکت میں اپنے نفس کے ساتھ شریک ھوا۔[7] امام صادق ع فرماتے ھے نفس کو چھوڑنے سے پہلےاسے ضرر رسانی سے روک دو اور اسکی زبان کو لگام چڑھا دو اور اسے ناجائز خوہشوں کی زنجیر  سے آزاد کرنے کیے لیےاسی طرح کوشش کرو جس طرح تم اپنا روزگار تلاش کرنے میں کوشش کرتے ھو کہ تمھارے عمل نفس کی وجہ سے ھے۔

abidmuqaddasi.blog.ir

 

[1] البقره 235

[2] البقره 48

[3] اعراف 205

[4] آیینه حقوق ص 67

[5] سورہ یوسف 53

[6] نازعات40/41

[7] مستدرک الوسایل ج2صفحہ270


آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

بانکداری اسلامی internaltravelinsurance جاذبه های گردشگری دنیای فناوری اینجا همه چی هست goleshamduni ترجمه مقاله رایگان انلاین sabasite lamboo11 طراحان برتر